قرآن اللہ كا كلام ہے ، جیسا كہ اللہ كا ارشادہے:
(وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ)
(التوبة:6)
نبی اكرم a نے اس وقت فرمایا جب آپ موسم حج میں قبائل كے پاس خو د كو ے.پیش كررہے تھے : أَلا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلامَ رَبِّي» ”كیا كوئی آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم كے پاس لے چلے ، كیونكہ قریش نے مجھے میرے رب كے كلام كی تبلیغ سے روك ركھا ہے
قرآن اللہ كا حقیقی كلام ہے ، اور اس كے حروف و معانی بھی حقیقی ہیں ، وہ كلام مخلوق كے مشابہ نہیں ، اللہ كی جانب سے نازل شدہ غیر مخلوق كلام ہے ، آغاز میں اللہ نے اس كے ساتھ كلام كیا ہے ، اور روح امین (جبرئیل) كی طرف اس كی وحی فرمائی ہے ، اور جبرئیل اسے لا كر محمد Aكے دل میں تھوڑا تھوڑا ڈال دیا ، پھر نبی نے اسے لوگوں كو پڑھ كر سنایا ، جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے قرآن كو ہم نے تھوڑا تھوڑا كركے اس لئے اتارا ہے كہ آپ سے بمہلت لوگوں كو سنائیں ، اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا “۔
اور جب لوگ اس كی تلاوت كریں ، یا اسے مصاحف میں لكھ دیں ، یا سینوں میں محفوظ كرلیں ،تو اس عمل كی بنا پر وہ اللہ كے حقیقی كلام سے خارج نہ ہوگا ، كیونكہ كلام كا انتساب حقیقی معنوں میں تو اس كی طرف كیا جاتا ہے جس نے پہلے سے كہا ہے ، نہ كہ جس نے اس كی تبلیغ اور ادا كی غرض سے كہا ہے ، چنانچہ غیر متلو كی تلاوت ، غیر مكتوب كی كتابت ، غیر محفوظ كی حفظ ، اور اسی طرح دیگر تصرفات ،تو حقیقت میں یہ فعل قاری كا یا كاتب كا یا حافظ كا فعل ہے ، اور كلام باری (اللہ ) كا كلام ہے، اللہ تعالی كا ارشاد ہے:
(وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًا)
كہہ دیجئے كہ اسے آپ كے رب كی طرف سے جبرائیل حق كے ساتھ لے كر آئے ہیں ، تاكہ ایمان والوں كو اللہ تعالی استقامت عطا فرمائے ، اور مسلمانوں كی رہنمائی اور بشارت ہو جائے *ہمیں بخوبی علم ہے كہ یہ كافر كہتے ہیں كہ اسے تو ایك آدمی سكھاتا ہے ، اس كی زبان جس كی طرف یہ نسبت كررہے ہیں عجمی ہے ، اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے “۔
اور جس نے اللہ كے كلام كو بشر كا كلام كہا تو اللہ نے اسے كافر قرار دیا، اور اسے جہنم رسید كرنے كا وعدہ بھی سنا دیا ، اللہ كاارشاد ہے :(سَأُصْلِيهِ سَقَرَ)
[المدثر: 26]میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا“۔
اس باب میں دو جماعتیں گمراہی كا شكار ہو گئیں
1-پہلی جماعت اور اس كا تعارف:جہمیہ اور معتزلہ
یہ وہ جماعت ہے جس نے صفات الہی كا انكار كیا ، اور اللہ كے كلام كی نفی كی، اور انہوں نے یہ گمان كیا كہ كلام كی اضافت اللہ كی طرف ایسے ہے جیسے مخلوق كی اضافت خالق كی طرف كی جائے جیسے عبد اللہ ، بیت اللہ ، ناقۃ اللہ ، اور یہ موصوف كی طرف صفت كی اضافت كے قبیل سے نہیں ۔
جہمیہ اور معتزلہ كی فہم كی تردید:
اللہ كی طرف اضافت كی چند شكلیں ہیں ، واضح رہے كہ اللہ كی طرف اضافت شدہ شئی یاتو عینی ہو اور بذات خود قائم ہو (یعنی اپنے قائم ہونے میں غیر كا محتاج نہ ہو) تو اس نوعیت كو مخلوق كی اضافت خالق كی طرف كہا جاتا ہے ، یا اضافت شدہ شئی ایك ایسا وصف (خوبی) ہو جس كا بذات خود قائم رہنے كا تصور محال ہو ، جیسے حیات (زندگی ) سمع (سننا) بصر (دیكھنا) علم (جانكاری) كلام وغیرہ ، اس قسم كی اضافت كو صفت كی اضافت اپنے موصوف كی طرف كہلاتا ہے ،جہمیہ اور معتزلہ كے اوپر بیان كردہ دعوی كے باوجود كیونكہ ان كا یہ دعوی كتاب و سنت اور اجماع امت كے خلاف ہے۔
1-دوسری جماعت اور اس كا تعارف:(صفاتیہ) كلابیہ ، اشاعرہ اور ماتریدیہ
ان جماعتوں نے اللہ كے كلام كو ثابت اس اعتبارسے كیا ہے كہ یہ كلام معنی قدیم ہےجو خود بخود قائم ہے ، اور رہی بات حروف اور اصوات (آواز ) كی تو یہ
ہی اللہ كی مشیئت سے اس كا تعلق ہوتا ہے اس كی حكایت بیان كرنے كے لئے ہے ۔
انہوں نے كلام كو حروف اور اصوات چھوڑ كر صرف معانی پر ہی گھیر دیا ،
انہوں نے كلام كو حروف اور اصوات چھوڑ كر صرف معانی پر ہی گھیر دیا ، اور جنت میں دونوں ماں وباپ(آدم و حوا)نے جو كچھ سنا ، اور ایسے ہی موسی علیہ السلام نے شجرہ كے پاس جو كچھ سنا سب كو انہوں نے مخلوق قرار دے دیا ، اور اسے اللہ كا حقیقی كلام ماننے سے انكار كردیا۔
كلابیہ ، اشاعرہ اور ماتریدیہ كی فہم كی تردید:
پہلی بات یہ كہ كلام كا اطلاق دو امور كے یكجاں ہونے پر ہی ہوتا ہے ، اور دل كی بات كو حقیقی كلام كا نام نہیں دیا جاسكتا ، اور ان جماعتوں نے اپنے دعوی سے كتاب و سنت اور اجماع امت كی مخالفت كی ہے۔