menu-icon menu-icon
رؤیت (دیدار)باری تعالی

اللہ اور یو م آخرت پر ایمان ہی كا ایك جزء اس بات پر ایمان لانا ہے كہ بروز قیامت اہل ایمان اپنی حقیقی نگاہوں سے بغیر كسی احاطہ اور حدود كے اپنے رب كے دیدارسے بہرہ مند ہوں گے ، اور انہیں یہ سعادت مندی دوجگہوں پرنصیب ہوگی : 1-میدان قیامت یعنی میدان محشر میں 2-جنت میں داخلے كے بعد

اللہ تعالی كا ارشاد ہے : (وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣﴾ )

(القيامة:22-23)
 

اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے*اپنے رب كی طرف دیكھتے ہوں گے “۔ایك دوسری آیت میں اللہ نے فرما: ( عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ)

(المطففين:23)
 

مسہریوں پر بیٹھے دیكھ رہے ہوں گے “۔اللہ كا ارشاد ہے : ( لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ)

(يونس:26)
 
seegogImg
seegogImg

جن لوگوں نے نیكی كی ہے ان كے واسطے خوبی ہے “۔ اور اس آیت میں وارد لفظ كی تفسیر نبی اكرم Aنے اللہ كے وجہ كریم سے كی ہے

( مسلم:181 , تفسير طبري (12/155)
 

ایك دوسری حدیث میں اللہ كے نبی Aنے فرمایا –جب آپ نے چودہویں رات كے چاند كو دیكھا: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ، كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ» ” عنقریب تم لوگ اپنے رب كو ایسے ہی دیكھو گے جیسے چاند كو دیكھتے ہو ، اور اور اس كے دیدار میں تمہیں ادنی مشقت بھی لاحق نہ ہوگی

( 554,مسلم:633)
 

seegogImg

رؤیت باری تعالی كے باب میں گمراہ ہونے والے فرقے

رؤیت باری تعالی كے بارے میں دو گروہ گمراہی كے شكار ہوگئے

1-صفات الہی كے انكار كرنے والے جہمیہ اور معتزلہ ،اور انہی كے افكارسے

ہماہنگ رافضہ اور اباضیہ: اوپر ذكر كردہ ان گروہوں نے رؤیت باری تعالی كا صاف انكار كردیا ، اور اللہ كے اس قول سے جو موسی سے كہا تھا اس سے استدلال كیا : (لَن تَرَانِي)

(الأعراف:143)
 

تم مجھ كو ہر گز نہیں دیكھ سكتے “۔ ایك دوسری آیت میں اللہ نے فرمایا: (لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ)

(الأنعام:103)
 

اس كو تو كسی كی نگاہ محیط نہیں ہو سكتی “۔ اس گروہ كی فہم كی تردید:اللہ كے اس قول :ﯝ ﯞ "سے مراددنيا میں دیكھنا ہے ، جیسا كہ موسی علیہ السلام نےطلب كیا تھا ، اور كلمہ (ﯝ)سے ہمیشگی كی نفی لازم نہیں آتی ، اور رہی بات دوسری آیت + ﭥ ﭦ " میں نفی ادراك سے مراد احاطہ اور گھیرا بندی كی نفی ہے ناكہ رؤ یت كی ، كیونكہ رؤیت تو واقع ہو جاتی ہے لیكن ادراك كا وقوع نہیں ہوتا ، جیسا كہ سورج ، چاند ، پہاڑاور اسی جیسی چیزیں ، اور اسی پر بس نہیں بلكہ اس كے ثبوت میں تواتر سے قرآنی آیات اور احادیث نبویہ وارد ہوئی ہیں۔

seegogImg
seegogImg

2-صوفیہ اور مبتدعہ میں سے اہل خرافات

یہ ایسی جماعت ہے جس نے رؤیت كے اثبات میں ساری حدوں كو پار كرديا، اور دنیا میں اپنے اولیاء و پیر كے لئے رؤیت كے وقوع كو بیان كردیا ، اور اس بارے میں گڑھی ہوئی حدیثیں روایت كیں ، حالانكہ اللہ كے رسول نے فرمایا ہے: إِنَّكُمْ لَنْ تَرَوْا رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا» ” تم لوگ اپنے رب كو اپنی موت سے پہلے نہیں دیكھ پاؤ گے “

(احمد:22864 ،النسائی فی الكبری:7716 , آجري في الشريعة :881 ، ابن ماجہ:4077 ,صحيح )
 

ایمان كی حقیقت

1-ایمان قول و عمل كا نام ہےیعنی دل اور زبان كی بات ، اور دل، زبان اور اعضاء كے عمل كو ایمان كہتے ہیں۔

قول القلب (دل كا قول)كا مطلبدل سے اعتقاد ركھنا ، اس كی تصدیق كرنا اور اسے قبول كرنا۔

قول اللسان (زبان كا قول)كا مطلب:كلمہ اسلام (شہادت) زبان سے اد اكرنا ، شہادتین كا اعلان كرنا۔

عمل القلب (دل كا عمل)كا مطلب: نيتوں اور ارادوں كو عمل میں لانا ، جیسے محبت ، خوف ، رجا (امید) توكل ۔

عمل اللسان (زبان كا عمل)كا مطلب: ذكر ، تلاوت ، اور دعا كرنا ۔

عمل الجوارح(جوارح كا عمل)كا مطلب: بدنی عبادت كے وقت تمام اعضاء كا حركت كرنا ۔

seegogImg

اس کا مطلب ہے کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت غیر قانونی ہے

اس کا مطلب ہے کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت

shape

اللہ كا ارشاد ہے : (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴿٤﴾ )

(الأنفال:2-4)
 

بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں كہ جب اللہ تعالی كا ذكر آتاہےتو ان كے قلوب ڈر جاتے ہیں ، اور جب اللہ كی آیتیں ان كو پڑھ كر سنائی جاتی ہیں تو وہ آيتیں ان كے ایمان كواور زیادہ كردیتی ہیں ،اور وہ لوگ اپنے رب پر توكل كرتے ہیں*جو كہ نماز كی پابندی كرتے ہیں ، اور ہم نے ان كو جو كچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ كرتے ہیں *سچا ایمان والے یہ لوگ ہیں ، ان كے لئے بڑے درجے ہیں ان كے رب كے پاس ، اور مغفرت اور عزت كی روزی ہے “۔ایك دوسری جگہ اللہ نے كچھ اس طرح فرمایا: (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ)

(الحجرات:15)
 

مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس كے رسول پر پكا ایمان لائیں ، پھر شك و شبہ نہ كریں ، اور اپنے مالوں سے ،اور اپنی جانوں سے اللہ كی راہ میں جہاد كرتے رہیں (اپنے دعوی ایمان میں ) یہی سچے اور راست گو ہیں “۔اور اللہ كے رسول كا ارشاد ہے الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ - أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ - شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ: لا إِلَهَ إِلا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ» ”ایمان كی ستر(70)سے زیادہ –یا ساٹھ سے زیادہ – شاخیں ہیں ، اس میں سب سے افضل لا إِلَهَ إِلا اللهُ كا إقرار ہے ، اور اس كا سب سے كمتر درجہ راستہ سے نقصان دہ چیزوں كا ہٹانا ہے ، اور حیابھی ایمان كا ایك جزء ہے

( بخاري : 9,مسلم:35 , واللفظ لمسل۔)
 

ایمان كی ایك حقیقت ہے ، اور یہ قول وعمل سے ملكر بنا ہے ، چنانچہ یہ ایسی تصدیق ہے جو قول و عمل كو لازم ہے ، اس لئے قول وعمل كی نفی تصدیق كی نفی كے لئے دلیل ہے۔

2- لفظ ایمان كا مطلب جب وہ تنہاواقع ہو

جب لفظ ایمان اكیلے بیان ہو اور اس كے ساتھ میں اسلام كا لفظ نہ بیان كیا گیا ہو تو وہ اسلام كے معنی میں (مترادف ) ہوتا ہے ، اور اس وقت دونوں لفظوں سے دین كامل مراد ہوتا ہے ، اور جب دونوں ایك ساتھ ذكر كئے جائیں تو ایمان كا مطلب باطنی اعتقاد ہوتا ہے ،اور اسلام كا مطلب ظاہری عمل ، اس بنا پر ہر مؤمن كو تو مسلمان كہا جاسكتا ہے ، لیكن ہر مسلمان كو (ظاہر ی عمل كو دیكھ كر) مؤمن نہیں كہا جا سكتا ،جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے: ﮍ ﮎ ﮏﮐ ﮑ ﮒ ﮓ ﮔ ﮕ ﮖ ﮗ ﮘ ﮙ ﮚ ﮛﮜ ﮝ ﮞ ﮟ ﮠ ﮡ ﮢ ﮣ ﮤ ﮥﮦ ﮧ ﮨ ﮩ ﮪ "[الحجرات:14]” دیہاتی لوگ كہتے ہیں كہ ہم ایمان لائے ، آپ كہہ دیجئے كہ در حقیقت تم ایمان نہیں لائے ،لیكن تم یوں كہو كہ ہم اسلام لائے ، (مخالفت چھوڑ كر مطیع ہو گئے ) حالانكہ ابھی تك تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا ،تم اگراللہ كی اور اس كے رسول كی فرمانبرداری كرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے كچھ بھی كم نہ كرے گا، بیشك اللہ بخشنے والا مہربان ہے

3- ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے

اللہ كے متعلق جانكاری حاصل ہونےسے ، اور اس كی كائنات كی نشانیوں میں تفكراور اس كی شرعی آیات میں تدبر سے ، اور اس كی بات ماننے سے اور اس كی نافرمانی كے گریز سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ، اور اسی طرح اللہ كی ناواقفیت سے ،اور اس كے كونی آیات میں عدم توجہ اور اس كی شرعی نشانیوں سے اعراض كرنے كے سبب ، اور اس كی فرمانبرداری كو بالائے طاق ركھنے اور سیاہ كاریوں كے ارتكاب سے ایمان میں كمی آجاتی ہے ، جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے: (وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا )

(الأنفال:2 )
 

اللہ كا ارشاد ہے : (فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ)

(التوبة:124)
 

اللہ كا ارشاد ہے : (هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ)

(الفتح:4)
 

4- ایمان كے درجات

ایمان كے چند خصال اس كے بعض سے اعلی وافضل ہیں جیسا كہ اوپر ایك حدیث اسی سے متعلق گذری ہے«الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ - أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ - شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ : "لا إِلَهَ إِلا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ» ”ایمان كے سترسے زیادہ –یا ساٹھ سے زیادہ – شاخیں ہیں ، اس میں سب سے افضل لا إِلَهَ إِلا اللهُ كا إقرار ہے ، اور اس كا سب سے كمتر درجہ راستہ سے نقصان دہ چیزوں كا ہٹانا ہے ، اور حیابھی ایمان كا ایك جزء ہے"

(بخاري : 9,مسلم:35 , واللفظ لمسلم)
 

5- اہل ایمان كے درجات

بعض اہل ایمان بعض ایمان والوں سے ایمان میں زیادہ كامل ہیں ، جیسا كہ اللہ كا فرمان ہے : (ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ)

(الفاطر:32)
 

اللہ كے رسول كا ارشاد ہے: "اہل ایمان میں سب سے كامل ایمان والے وہ ہیں جو حسن خلق میں سب سے بہتر ہیں"

(ابوداؤد:4682 ,ترمذي:1162 , مسند احمد:7402 , حسن صحيح)
 

واضح رہے كہ جس شخص نے كلمہ شہادتین (لاالہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ )كا اس كے معنی پر اعتقاد ركھتے ہوئے اقرار كیا ، اور اس كے تمام تقاضوں كو پورا كیا ، تو اسے اصل ایمان حاصل ہوگیا ، اور جس نے تمام واجبات پر عمل كیا ، اور سارے حرام كاموں سے اجتناب كیا ، تو اسے ایمان واجب حاصل ہوا ، اور جس شخص نے تمام واجبات ، اور مستحبات پر عمل كیا اور تمام حرام كردہ اور مكروہ كاموں سے اپنے آپ كو دور ركھا تو اسے ایمان كامل حاصل ہوا۔

6- ایمان كے بارے میں ان شاء اللہ كہنا

” میں ان شاء اللہ مومن ہوں “اور اس كی تین حالتیں ہیں : پہلی حالت:

اگر یہ بات اصل ایمان میں شك كی بنیاد پر وہ كہتا ہے تو اس كا ان شاء اللہ كہنا حرام ہے ، بلكہ كفر ہے ، اس لئے كہ ایمان حتمی ہے اس كے اصل میں شك كی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ دوسری حالت:

اور اگر یہ تزكیہ نفس كے خوف كی بنا پر ایمان واجب یا ایمان كامل كو حاصل كرنے كے دعوی كے بناپر كہتاہے تو ایسا كرنا واجب ہے۔

تیسری حالت: اور اگر حصول تبرك كی خاطر مشیئت كا ذكر كرتا ہے تو اس وقت ان شاء اللہ كہنا جائز ہے ۔

seegogImg
seegogImg

7- معصیت اور گناہ كبیرہ كے ارتكاب سے ایمان زائل ونابود نہیں ہوتا

اللہ كی نافرمانی اور گناہ كبیرہ سرزد ہو جانے سے ایمان زائل اور ختم نہیں ہو جاتا بلكہ اس كے سبب اس میں نقصان لاحق ہو تا ہے ، اور وہ اپنے اصل پر باقی رہتا ہے ،چنانچہ گناہ كبیرہ كا مرتكب ناقص الایمان مومن ہے ، وہ اپنے ایمان كے ساتھ مومن ہے ، اور اپنے گناہ كبیرہ سرزد ہو نےكی وجہ سے فاسق ہے ، دنیا میں (اس كی وجہ سے ) نہ تووہ دین سے خارج ہوتا ہے ،اور نہ ہی آخرت میں آگ میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے ، بلكہ اس كا معاملہ اللہ كی مشیئت پر منحصر ہے ، اللہ اگر چاہے تو اپنے فضل و رحمت سے اسے عفو و در گذر كردے ، اور اسے جنت میں داخل فرمادے ، یا اگر وہ چاہے تو اس كے گناہ كے مقدار اسے عذاب سے دو چار كردے ، اور اس كا ٹھكانا جنت بنادے ، یا اسے اس كے چند گناہوں كے سبب شفاعت كرنے والوں كی شفاعت سے خارج كردے ، یا ارحم الراحمین كی رحمت سے باہر كردے ، جیسا كہ اللہ كا ارشاد ہے: ( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا) یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریك كئے جانے كو نہیں بخشتا ، اور اس كے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے ، اور جو اللہ تعالی كے ساتھ شریك مقرر كرے اس نے بہت بڑا گنا ہ اور بہتان باندھا

(النساء:48 )
 
seegogImg

اور الله كے نبی كا ارشاد ہے يَدْخُلُ أَهْلُ الجَنَّةِ الجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ»، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: «أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ. فَيُخْرَجُونَ مِنْهَا قَدِ اسْوَدُّوا، فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرِ الحَيَا، أَوِ الحَيَاةِ -» ”جب جنت والے جنت میں ،او رجہنمی جہنم میں داخل ہو جائیں گے ،تو اللہ تعالی فرمائے گا: ”اس شخص كو نكال لو جس كے دل میں رائی كے دانے كے برابر ایمان ہے ، تو انہیں جہنم سے نكال لیا جائے گا حالانكہ وہ (جل كر) كالے ہو چكے ہوں گے ، پھر انہیں نہر حیات میں ڈال دیا جائےگا

(بخاري : 22)
 
seegogImg

ایك دوسری حدیث میں اللہ كے رسول نے یوں فرمایا:

ایك دوسری حدیث میں اللہ كے رسول نے یوں فرمایا: يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ» ”جہنم سے اس شخص كو باہر كرلیا جائےگا جس نے لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ كا إقرار كيا , اور اس كے دل میں جو كے وزن كے برابر بھی بھلائی (ایمان ) ہو ، اور جہنم سے اس شخص كو نكال لیا جائےگے جس نے لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ كا إقرار كیا ، اور اس كے دل میں گیہوں كے دانے كے برابر بھلائی ( ایمان ) ہو ، جہنم سے اس شخص كو باہر كرلیا جائےگا جس نے لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ كا إقرار كيا , اور اس كے دل میں ذره برابر بھی بھلائی (ایمان ) ہو

(بخاري : 44)
 

گناہ كبیرہ كے مرتكب كے متعلق گمراہ ہونے والے گروہ

اور اس مسئلہ میں دوگروہ گمراہی كے شكار ہوگئے : پہلا گروہ:وعیدیہ:یہ وہ جماعت ہے جو تنفیذ وعید كاقائل ہے ، اور گنہ گار موحدین سے گناہ كبیرہ كے ارتكاب كی صورت میں ان كے حق میں شفاعت كا منكر ہے ، اور وعیدیہ جماعت كی دو قسمیں ہیں :

1-خوارج:یہ وہ لوگ ہیں جن كا یہ اعتقاد ہے كہ گناہ كبیرہ كرنے والا ایمان سے خارج ہو جاتا ہے اور كفر میں داخل ہو جاتا ہے ، وہ دنیا میں كافر ہے اور آخرت میں جہنم میں ہمیشہ رہنے والا ہے ۔

2-معتزلہ:یہ وہ لوگ ہیں جن كا اعتقاد ہے كہ گناہ كبیر ہ كا مرتكب ایمان سے باہر ہو جاتا ہے اور كفر میں داخل نہیں ہوتا ، بلكہ دنیا میں دو منزلوں میں سے ایك منزل كے درمیان رہتا ہے ، نہ وہ مؤمن ہے اور نہ ہی كافر ، اور آخرت میں ہمیشہ جہنم میں رہنے والا ہے ۔

چند اعتبار سے وعیدیہ جماعت كی تردید ، اور وہ یہ ہیں:

1-اللہ تعالی نے دنیا میں گناہ كبیر ہ سرزد ہونے والے شخص كے ایمان كو ثابت كیا ہے ، اور ان كے ایمانی اخوت كے وصف كو باقی ركھا ہے ، جیسا كہ اس آیت میں اللہ كا ارشاد ہے : ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ) اے ایمان والو! تم پر مقتولوں كا قصاص لینا فرض كیا گیا ہے ، آزاد آزاد كے بدلے ، غلام غلام كے بدلے ، عورت عورت كےبدلے ، ہاں جس كسی كو اس كے بھائی كی طرف سے كچھ معافی دیے دی جائے اسے بھلائی كی اتباع كرنی چائیے اور آسانی كے ساتھ دیت ادا كرنی چائی

(البقرة:178)
 

آیت مذكور میں اللہ نے قاتل كو مقتول كے بھائی كا نام دیا ہے ۔ اور ایسے ہی اللہ نے ایك دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : (وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿١٠﴾) ”اور اگر مسلمانوں كی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل میلاپ كرادیا كرو ،پھر اگر ان دونوں میں سے ایك جماعت دوسری جماعت پر زیادتی كرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی كرتاہے لڑو یہاں تك كہ وہ اللہ كے حكم كی طرف لوٹ آئے ،اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف كے ساتھ صلح كرادو ، اور عدل كرو ، بیشك اللہ تعالی انصاف كرنے والوں سے محبت كرتا ہے *(یاد ركھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ كرادیا كرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ،تاكہ تم پر رحم كیا جائے

[الحجرات:9-10]
 

اوپر گذری ہوئی آیت كریمہ میں اللہ نے دو قتال كرنے والے گروہ كو مومن كہا ہے ، اور ان دونوں كے لئے ایمانی اخوت كو ثابت كیا ہے

2-شرك چھوڑ كر اللہ تعالی جسے چاہے بخش دیتا ہے ، اور جہنم سے اس شخص كو باہر نكال لے گا جس كے دل میں رائی كے دانے كے برابر ادنی ایمان ہوگا ، جیسا كہ اس كے متعلق شفاعت والی حدیثیں تواتر كے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔

دوسراگروہ:

مرجئہ :اس گروہ كا اعتقاد ہے كہ عمل ایمان سے الگ ہے ، یعنی عمل ایمان كے مسمی كو شامل نہیں ہے ، اس بنا پر ان كے نزدیك عمل ایمان كی تعریف اور اس كی حقیقت میں داخل نہیں ہے ، اور اس اعتقاد كے حامل لوگوں كی ایمان كی تعریف میں چند قسمیں ہیں :

1-جہمیہ:اس فرقہ كے نزدیك ایمان صرف دل كے تصدیق یا معرفت قلب كا نام ہے ، اس وجہ سے ایمان كے ہوتے ہوئے كوئی گناہ نقصاندہ نہ ہوگا ،ایسے ہی جیسے كفر كے ہوتے ہوئے كوئی اطاعت نفع بخش نہیں ۔

2-كرامیہ :اس فرقہ كے نزدیك ایمان فقط زبان سے نطق (ادا ) كانام ہے ۔

3-فقہائے مرجئہ:ان كى نزديك ایمان دل سے تصدیق ،اور صرف زبان سے نطق كا نام ہے ، اور رہی بات اعمال كی تو وہ ایمان كی تعریف اور اس كی حقیقت سے خارج ہے ، بلكہ وہ اس كا شمار ایمان كے ثمرات میں ہوتا ہے ۔

چند شكلوں سے مرجئہ كی تردید

1-اللہ نے اعمال كا نا م ایمان ركھا ہے ، اور ان لوگوں كی شان میں فرمایا جنہوں نے بیت المقدس كی طرف رخ كركے نماز ادا كی اور تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہو گئے (وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ) اللہ تعالی تمہارے ایمان ضائع نہ كرے گا“۔

(البقرة:143)
 

واضح ہو كہ اس آیت میں ایمان سے مراد نماز ہے ، یعنی اللہ تمہاری نماز كو ضائع نہیں كرےگا۔ 2-نبی اكرم نے عملی گناہ كبیرہ كے مرتكب سے ایمان مطلق كی نفی فرمائی ہے ، آپA كا ارشاد ہے : لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَشْرَبُ الخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَنْتَهِبُ نُهْبَةً، يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ» ”نہیں زنا كرتا ہے كوئی زنا كرنے والا جس وقت كہ وہ زنا كرتا ہے ، اس حال میں كہ وہ مومن ہے ، اور نہیں شراب پیتا ہے جس وقت كہ كوئی شراب پیتا ہے ، اس حال میں كہ مومن ہے ، نہیں چوری كرتا ہے كوئی چوری كرنے والا جس وقت كہ وہ چوری كرتا ہے ، اور اس حال میں كہ وہ مومن ہے ،اور نہیں لوٹتا ہے كوئی بھی چیز كہ لوگ اس میں اپنی نگاہیں اس سے ہٹا لیتے ہیں جس وقت كہ وہ لوٹتا ہے ، اس حال میں كہ وہ مومن ہے

(بخاري : 2475 ,مسلم:57)
 

وعیدیہ اور مرجئہ دونوں گروہوں كی بات میں بگاڑ پیدا ہونے كی جگہ یہ ہے كہ ایمان ایك ہی چیز ہے ، یا تو اس كا مكمل وجود ہوگا یا وہ مكمل ناپید ہو گا ، رہی بات فرقہ مرجئہ كی تو انہوں نے صرف اقرار ہی ایمان كے لئے ثابت كیا ، چاہے وہ دل سے ہو ،یا زبان سے ہو ، یا دونوں سے ہو ، اور گرچہ اس نے سرے سے كوئی عمل كیا ہی نہ ہو ، حقیقت میں یہی جماعت تفریط كا شكار ہے ، اور رہی بات فرقہ وعیدیہ كی تو اس نے ایمان كی ادنی گناہ كبیرہ كے ارتكاب پرہی ایمان كی نفی كردی ، اور یہ جماعت افراط كا شكار ہو گئی ، اس سے معلوم ہوا كہ آغاز میں تو دونوں ایك ہی فكر كے حامل ہیں ، لیكن نتیجہ كے اعتبار سے دونوں تضاد كے شكار ہیں۔