تمام مسلمان ایك امت ہیں ، اور اس امت كا كوئی معاملہ سیدھا نہیں ہوسكتا ، اور نہ ہی اس كی شان میں اصلاح پیدا ہو سكتی ، اور نہ ہی اس كے پیغامات ثمر آور ہو سكتے ہیں جب تك كہ وہ چند امور كو ملحوظ خاطر نہ ركھے ، جن كا ذكر ذیل كے صفحات میں كیا جارہا ہے :
اللہ كے رسول كا ارشاد ہے «وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً» ”جو مرے اور اس كی گردن میں بیعت نہ ہو ، تو گویا وہ جاہلیت كی موت جیسا مرا
حج , جمعہ ، عیدیں امیروں (حكمرانوں ) كے ساتھ پڑہنا ، چاہے وہ نیك ہوں یا فاجر و فاسق، اور انہیں نصیحت كرنا ، بوقت اختلاف انہیں كتاب و سنت كی راہ دكھانا ، جیسا كہ اللہ كا فرمان ہے : ﯵ ﯶ ﯷ ﯸ ﯹ ﯺ ﯻ ﯼ ﯽ ﯾﯿ
ایمان والو!فرمانبر داری كرو اللہ تعالی كی اور فرمانبرداری كرو رسول كی ، اور تم میں سے اختیار والوں كی ، پھر اگر كسی چیز میں اختلاف كرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالی كی طرف اور رسول كی طرف ، اگر تمہیں اللہ تعالی پر اور قیامت كے دن پر ایمان ہے ، یہ بہت بہتر ہے ، اور باعتبار انجام كے بہت اچھا ہے “۔ور نبی اكرمA كا ارشادہے:
سمع طاعت پر، ہماری سرگر می كی حالت میں ، ناپسندیدگی كی صورت میں ، تنگی اور آسانی كی حالت میں ، حق تلفی كی حالت میں ، اور یہ كہ ہم جھگڑیں اپنے ولی امر سے ، ہاں ایك صورت میں جب تم لوگ واضح اور اعلانیہ كفر دیكھو، اور اللہ كی جانب سے اس كے متعلق تمہارے پاس (ٹھوس نص) دلیل ہو
ایك دوسری حدیث میں رسول اللہ A نےفرمایا: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْكِرُونَهَا» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُمْ» ” عنقریب تم لوگ میرے بعد حق تلفیاں دیكھو گے ، اور ایسے كام دیكھو گے جس كا تم انكار كرو گے “ ، تو صحابہ كرامe.
نے عرض كیا :تو ایسی حالت میں ہمیں كس چیز كا حكم فرماتے ہیں ، اے اللہ كے رسول!؟تو آپ نے فرمایا:
اولیائے امور(حكمراں)كے خلاف بغاوت جائز نہیں ، جب تك كہ مندرجہ مضبوط اور ٹھوس شروط نہ پائی جائیں:
1-علمی نقطہ نظر سے یا آنكھوں دیكھا كفركا وقوع ثابت ہو جائے جیسا كہ اللہ
كے رسول كا فرمان ہے : «إِلا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا» ” جب تك كہ تم ان میں اعلانیہ كفر نہ دیكھ لو “ اس حدیث كی روشنی میں افواہوں اور خبروں پر اعتماد و بھروسہ نہیں كیا جائے گا۔
2- وہ (واقع ہونی والی غلطی ) كفر ہو ، اس لئے ان كے فسق و فجور كی باعث ان كے خلاف بغاوت نہیں كی جاسكتی ۔
ان كا كفر ظاہراور
اعلانیہ ہو ، اس لئے ان كے چھپے ہوئے كفر كی بنا پر ان كے خلاف خروج نہیں كیا جاسكتا
ان كے تكفیر پر واضح اور قطعی دلیل(نص صریح) ہو ، جیسا كہ اللہ كے رسول كا فرمان ہے : عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ» ” اس كى بارے میں تمہارے پاس اللہ كی كوئی دلیل ہو“ اس لئے محض ظنی ، یا قابل احتمال ، یا اختلافی مسائل كی بنیاد پر اس كے خلاف بغاوت كرنا جائز نہیں۔
طاقت و قوت كا ہونا: اس لئے عدم طاقت ، اور لاچاری كی حالت میں اس كے خلاف بغاوت كرنا درست نہیں ، بیان كردہ تمام شروط پائی جانے كی صورت میں یہاں تك بھی خیال كیا جائے گا كہ اس سے دین اور اہل دین كی بیخ كنی ، اور تباہی نہ ہو ، جیسا كہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے: